بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق چونکہ صہیونیوں نے خطے اور دنیا میں اپنا جواز (Legitimacy) بڑھانے کے لئے اس منصوبے پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی تھی اور بہت سی سفارتی کوششیں کی تھیں، چنانچہ 7 اکتوبر 2023 کے معرکۂ طوفان الاقصیٰ اور غزہ جنگ جیسے واقعات کے سوا کچھ بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتا تھا، اور یہ غزہ اور فلسطین کا مسئلہ تھا جو صہیونیوں کے عزائم کی راہ میں ٹھوس رکاوٹ بن کر کھڑا ہوگیا۔
مسئلے کی ایک اور جہت معیشت ہے جسے صہیونی ریاست میں ایک خاموش بحران کہا جاتا ہے۔ جنگ کے شروع ہونے کے ساتھ ہی اسرائیلی معیشت بھی تباہی کے بھنور میں ڈوب گئی جس کے اثرات اور نتائج بدستور برقرار ہیں اور غزہ میں جنگ کے ہر گذرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
عبرانی ذرائع اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مطابق صہیونی ریاست کی معیشت جس کی شرح نمو پہلے 6.5 فیصد تھی، کسادبازاری کا شکار ہو گئی ہے اور اقتصادی درجہ بندی میں اس کی ساکھ بھی کافی گر گئی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں سرکاری اندازے مختلف ہیں۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بزالل اسموترچ نے جنگ کی لاگت تقریباً 300 بلین شیکل (89.4 بلین ڈالر) بتائی ہے۔ ریاست کے اکاؤنٹنٹ جنرل یاہلی روٹنبرگ نے 2024 کے آخر تک جنگ کی لاگت کا تخمینہ 140 بلین شیکل ($ 41.7 بلین) لگایا تھا۔ روٹنبرگ نے پیش گوئی کی ہے کہ جنگ کے اخراجات 2025 کے آخر تک 200 بلین شیکل ($ 59.6 بلین) تک پہنچ جائے گی۔
نیز، تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق، براہ راست معاشی نقصانات 60 بلین ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں، اور کچھ دوسرے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں، کیونکہ جنگ کے اثرات ریئل اسٹیٹ، روزگار اور صنعت جیسے اہم شعبوں تک بھی پھیل چکے ہیں۔ دنیا بھر میں صہیونی ریاست سے متعلق اشیاء پر پابندیوں میں بھی نمایاں اضافہ ہؤا ہے جس سے خوراک کے شعبے میں اسرائیلی برآمدات کو ایک سنگین چیلنج درپیش ہے۔ اس وقت مقبوضہ علاقوں میں مخدوش معاشی صورتحال سبب بنی ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ نے کئی سرکاری اداروں اور وزارت خانوں کے بجٹ میں کمی یا مکمل کٹوتی کی ہے۔
واضح رہے کہ یہ بات صہیونی فوج کے بارے میں بھی درست ہے۔ غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی ریاست کے بہت سے بھاری سازوسامان کو پہنچنے والے نقصان اور اس کے فوجیوں کی فرسودگی نے ریاست کی فوج کی باذی کو بھاری نقصان پہنچایا ہے، اس حد تک کہ صہیونی ریاست کے سیاسی حکام غزہ کی جنگ کی حیرت انگیز لاگت اور غزہ کی جنگ اور لبنان کی جنگ کے دوران ریاست کی فوج کو پہنچنے والے نقصان کی تعمیر نو و مرمت کے لئے درکار لاگت کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کے آپریشن طوفان الاقصیٰ نے اسرائیلی ریاست کو ایک تاریخی دھچکا پہنچایا اور اس کی فوجی، اقتصادی اور سماجی کمزوریوں کو بے نقاب کرکے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو توڑ دیا۔ اس آپریشن اور غزہ جنگ کے تسلسل نے صہیونی ریاست کو بھاری انسانی، اقتصادی (67 بلین ڈالر کے اخراجات اور بے مثال کساد بازاری) اور بنیادی ڈھانچے کے نقصانات پہنچا کرغاصب ریاست کو ایک گہرے بحران میں ڈال دیا ہے، جس کا مکمل احاطہ اس رپورٹ میں نہیں کیا جا سکتا، اور ان کی تشریح کے لئے متعدد رپورٹس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔
فلسطینی مقاومت نے ہمت و استقامت کے ساتھ نہ صرف اسرائیل کے جعلی بالادستی کو گرا دیا بلکہ آزاد اقوام میں امید اور اتحاد کی لہر بھی دوڑا دی۔ طوفان الاقصیٰ ایک ایسے راستے کا آغاز ہے جو فلسطینی کاز کے لئے بھرپور مقاومت اور عالمی حمایت کے ساتھ قدس کی حتمی فتح اور آزادی کا باعث بنے گا اور یہ شکست صہیونی ریاست کے ناگزیر خاتمے کی نوید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110









آپ کا تبصرہ